نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نزدیک آتے ہی جوش و خروش بڑھ گیا ہے اور دیگر عوام کے ساتھ مسلم کیمونٹی بھی اس حوالے سے سرگرم ہوچکی ہے۔
پیو ریسرچ مرکز کے مطابق اگرچہ مسلمان امریکہ میں ایک فیصد ہے تاہم اہم ریاستوں میں انکی اکثریت انتہائی اہمیت کا حامل ہے بالخصوص مشی گن، اوہایو و ویرجینا میں مسلم ووٹ بہت اہم شمار ہوتا ہے۔
مشی گن اسلامی فاونڈیشن کی چیرپرسن «ندا الحانوتی» نے فرنچ نیوز سے گفتگو میں کہا: سال ۲۰۲۰ میں انتخابات امریکن اور دیگر اقوام میں اہمیت کا حامل ہے۔
مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر وہ کسی ایک پارٹی کی حمایت کریں گے تو وہ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
۴۳ سالہ مسلمان امریکی خاتون فاطمہ سلمان کا کہنا ہے کہ وہ جوبایڈن کو ووٹ دیں گی۔
سلمان کا کہنا ہے کہ انکا تین بیٹا ہے اور وہ ٹرمپ کے آنے سے خوفزدہ ہے۔
مسلمانوں کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں پر سفری پابندیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
مسلم الیکشن مشیر «فاروق میتا» کے کہنا ہے کہ ہم سرگرمی سے مہم چلارہے ہیں اور ہمارا کردار بہت اہم ہوگا ۔
ٹرمپ کے الیکشن مہم چلانے والے «کورٹنی پارلا» کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے مذہبی اور اقتصادی سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے پرعزم ہے۔
مسلمانوں سے امتیازی سلوک اور کورونا بحران میں ناکامی ٹرمپ کے حوالے سے منفی پوائینٹس شمار کیے جاتے ہیں۔
الحانوتی کا کہنا ہے کہ لوگ مجبورا بایڈن کے ووٹ دیں گے صرف ٹرمپ کی مخالفت میں، ورنہ وہ بایڈن کے بھی زیادہ حامی نہیں۔/